Tuesday, September 18, 2012

گزل

یہ زندگی کا مقدّر ہے کیہ کیا جاۓ 
قضاء کا وقت مکرر ہے کیہ کیا جاۓ

ہر ایک نگاہ کے اندر ہے کیہ کیا جاۓ
بہت ڈراونا منظر ہے کیہ کیا جاۓ

حسین سے بھی ہنسیتر ہے کیہ کیا جاۓ
تیرے خیال کا پیکر ہے کیہ کیا جاۓ

ہر ایک شخص کے دل میں ہے خواہشوں کا ہجوم
طلب سبھی کی برابر ہے کیہ کیا جاۓ

یہ جان جسم سے ہو سکتیہے جدہ لیکن
یہ میری روح کے اندر ہے کیہ کیا جاۓ

جو گیت دارو-رسن کا نہ گا سکا کوئی 
وو صرف میری زبان پر ہے کیہ کیا جاۓ

وو جسکے نام سے بدنام ہوا تھا کبھی 
فر اسکا نام زبان پر ہے کیہ کیا جاۓ

وو جیست میں جسے سہرا سمجھ رہا تھا زہین
مصیبتوں کا سمندر ہے کیہ کیا جاۓ

اسرےکلم جناب بنیاد حسسین بکانیری- 


گزل

اسلئے دل پریشان ہے
ہر طرف اک بیابان ہے

اپنے چہرے سجاۓ رہو
آئینوں کی یہ دکان ہے

آدمی کہ رہے ہو جسے
وو تو ہندو مسلمان ہے

وو جو محفوظ خود ہی نہیں
وو ہمارا نگہبان ہے

وو کبھی خود نہیں جھانکتے
انکا اپنا گریبان ہے

تم ہو مالک ریایا ہیں ہم
یہ بھی کیا وقت کی شان ہے

-آسرے کلم جناب ستیپرکاش شرما